Sec Bottom Mockup

زکوٰۃ کی فرضیت ، اہمیت اور فضیلت

از تحریر: مفتی محمد وسیم ضیائ

نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی وَنُسَلِّمُ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِااللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ



اسلام کے عظیم ستونوں میں سے ایک ستون زکوۃ ہے۔ زکوۃ کی فرضیت کا انکار کفر ہے، زکوۃ کی فرضیت کا حکم ۲ ہجری (روزے کی فرضیت سے پہلے )میں نازل ہوا۔ قرآن مجید فرقان حمید میں کثیر مقامات پر زکوۃ کا تذکرہ ہے،اور 82 ایسے مقامات ہیں جہاں زکوۃ اور نماز کا تذکرہ ایک ساتھ ہے۔ اللہ رب العزت اپنے پاک کلام قرآنِ مجید فرقانِ حمیدمیں ارشاد فرماتاہے۔

(01) وَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَارْکَعُوۡا مَعَ الرّٰکِعِیۡنَ


اور نماز قائم کرو اور زکوۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔
(سورۃ البقرہ آیت 43 )


اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ لَہُمْ اَجْرُہُمْ عِنۡدَ رَبِّہِمْۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَیۡہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوۡنَ


بے شک وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے اور نماز قائم کی اور زکٰوۃ دی اُن کے لیےاُن کے رب کے پاس اجر و ثواب ہے اور نہ انہیں کچھ خوف ہو نہ کچھ غم ۔
(سورۃ البقرہ آیت 277 )
زکوۃ کے لغوی معنی: علامہ محمد بن علی علاؤالدین رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں لفظِ زکوۃ کے دو معنی ہیں ۔ (۱) نموو اضافہ (۲) طہارت و پاکیزگی ۔
(درمختار صفحہ 126 )
نموو اضافہ : چونکہ زکوۃ کی ادائیگی سے بقیہ مال میں اضافہ اور برکت ہوتی ہے۔ اس لیے زکوۃ کو زکوۃ کہا جاتا ہے۔ اللہ رب العزت اپنے پاک کلام قرآنِ مجید فرقانِ حمیدمیں ارشاد فرماتاہے

یَمْحَقُ اللہُ الرِّبٰوا وَیُرْبِی الصَّدَقٰتِ


اللّٰہ ہلاک کرتا ہے سُود کو اور بڑھاتاہے صدقات کو ۔
(سورۃ البقرہ آیت 276 )
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : صدقے سے مال کم نہیں ہوتا۔
(المعجم الاوسط ، حدیث 2270 )
زکوۃ دینے سے بظاہر مال میں کمی واقع ہوتی ہے، لیکن درحقیقت مال میں اضافہ ہوتا ہے۔بعض درختوں میں کچھ اجزاء فاسدہ پیدا ہوجاتے ہیں کہ درخت کی اُٹھان کو روک دیتے ہیں۔ عقل مند انسان اُن اجزاء کو کاٹ ڈالتےہیں،لیکن احمق نہ کاٹے گا یہ گمان کرتے ہوئے کہ درخت میں کمی واقع ہوجائے گی۔
طہارت و پاکیزگی : زکوۃ کی ادائیگی سے من اور مال دونوں صاف ستھرے ہوجاتے ہیں، اور یہ معنی قرآن سے بھی واضح ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اپنے مال کی زکوۃ نکال کہ وہ پاک کرنے والی ہے۔
(مسند امام احمد بن حنبل حدیث 12397 )
یاد رہے! ایک قطرہ پیشاب یا شراب کا سارے برتن کے پانی کو خراب کردیتا ہے ، اسی طرح مالِ زکوۃ (کل مال کا ڈھائی فیصد حصّہ جو زکوۃ کہلاتا ہے)جو بہت تھوڑا ہے لیکن سارے مال کو خراب اور بے برکتی بنا دیتاہے۔
مال کی حفاظت کیسےہو: اگر آپ صاحبِ نصاب ہیں یعنی زکوۃ آپ پر فرض ہوچکی ہے تو اپنے مال کو محفوظ رکھنے کے لیے ہر سال زکوۃ نکالیں۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اپنے مالوں کی زکوۃ نکال کر مضبوت قلعوں میں محفوظ کرلو۔
(مراسیل ابو داؤد )
زکوۃ کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پردہ فرمانے کے بعد ہر طرف فتنے کھڑے ہوگئے ۔ ہر فتنے سے مقابلہ کرتے ہوئےزکوۃ سے انکار کرنے والوں کے خلاف خلیفہء اوّل سیدنا صدیق ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جہاد کیا۔ ہرپچھلی امت پر زکوۃ فرض تھی بنی اسرائیل پر تو پچیس فیصد زکوۃ تھی جبکہ ہم پر ڈھائی فیصد ہے۔ جو زکوۃ ادا نہیں کرتے وہ قرآن و سنت کی وعیدات کو ضرور پڑھیں۔


وَالَّذِیۡنَ یَکْنِزُوۡنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا یُنۡفِقُوۡنَہَا فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ ۙ فَبَشِّرْہُمۡ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ


اور وہ جو جمع کرتے ہیں سونا اور چاندی اور اسے اللّٰہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں خوشخبری سناؤ دردناک عذاب کی۔

یَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیۡہَا فِیۡ نَارِجَہَنَّمَ فَتُکْوٰی بِہَا جِبَاہُہُمْ وَجُنُوۡبُہُمْ وَظُہُوۡرُہُمْ ؕ ہٰذَا مَاکَنَزْتُمْ لِاَنۡفُسِکُمْ فَذُوۡقُوۡا مَاکُنۡتُمْ تَکْنِزُوۡنَ


جس دن وہ تپایا جائے گا جہنّم کی آگ میں پھر اس سے داغیں گے ان کی پیشانیاں اور کروٹیں اور پیٹھیں یہ ہے وہ جو تم نے اپنے لئے جمع کر رکھا تھا اب چکھو مزااس جمع کرنے کا
(سورہ توبہ آیت 34، 35 )
اتنی سخت وعید اُن لوگوں کے لیے ہے جو اپنے مال کی زکوۃ نہیں نکالتے۔حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا : جوزکوۃ دیتا ہے، اُس کے لیے مذکورہ وعید نہیں ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا
جس شخص کو خدائے تعالیٰ نے مال عطا کیا تو اس کی زکوۃ نہیں ادا کرتا تو اس کے مال کو قیامت کے دن گنجے سانپ کی شکل میں تبدیل کیا جائے گا، جس کے سر پر دو چتیاں ہوں گی، وہ سانپ اس کی باچھیں پکڑے گا اور کہے گا میں تیرا مال ہوں میں تیرا خزانہ ہوں۔
(بخاری شریف ، حدیث 4565 )

اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الامین الکریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم وما علی الاالبلاغ

كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعِمِائَةِ ضِعْفٍ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: إِلَّا الصَّوْمَ فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ


یعنی : آدمی کے ہر نیک کام کا بدلا دس سے سات سو گنا تک دیا جاتا ہے۔ مگر روزہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ: وہ میرے لیے ہے اور اُس کی جزاء میں ہی دوں گا۔
(مسلم شریف باب فضل الصیام ،مشکوٰۃ شریف حدیث 1959 )
بیشک !ہر نیکی کا اجر وثواب صرف اور صرف اللہ رب العزت ہی دیتاہے، لیکن روزے کےثواب کواپنی طرف منسوب کرکے روزے کی عظمت کو مزید اُجاگر کر دیا،یہ اضافتِ تشریفی کی طرح ہے۔ جیسے کعبہ شریف کو بیت اللہ کے لفظ سے تعبیر کرنا۔ لفظ بیت (گھر) کی نسبت اللہ کی طرف کی جاتی ہے، تاکہ واضح ہوجائے یہ گھر دیگر گھروں کی طرح نہیں ہے۔ علماء کرام نے حدیث ِبابرکت میں اجزی کے لفظ کو مجھول بھی پڑھاہے، جس کا مطلب یہ ہواکہ اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ روزے کی جزاء میں خود ہوں۔ حدیث کے اس مفہوم سے واضح ہوتا ہے روزہ رکھنے والا اگر ظاہری و باطنی آداب کے ساتھ رکھےتو اسے خدا مل جاتا ہے۔ ہارون رشید اپنی کثیر لونڈیوں میں سے سیاہ اور کالی لونڈی پر فریفتہ ہوگیا جب یاران ِہارون رشیدکے درمیان چہ میگوئیاں شروع ہوئیں تو ہارون رشید نے اپنے دوستوں اور لونڈیوں کو جمع کیا ،اورایک بڑے تھال میں کثیرتعداد میں قیمتی موتیاں رکھی ہوئی تھیں، اس نے لونڈیوں کے آگےوہ قیمتی موتیاں گرادیں اور کہا جس کے ہاتھ جو آجائے وہ اُسی کا ہے۔ ساری لونڈیاں موتیاں اٹھانےلگ گئیں ، لیکن وہ کالی سیاہ لونڈی صرف ہارون رشید کو تکتی رہی۔ ہارون رشید نے دوستوں کے سامنے اُس لونڈی سے مخاطب ہو کرکہا، سب موتیاں اٹھارہی ہیں تم کیوں نہیں اٹھا رہی۔ اُس عقل مندسیاہ لونڈی نے کہا آپ نے کہا تھا، جو جس پر ہاتھ رکھے گا وہ اُسی کا ہے، اس لیے میری نگاہ انتخاب آپ ہی ہیں۔ اور یہ بات ظاہرہےکہ اگر آپ مل گئے تو آپ کی ساری بادشاہت آپ کی بدولت مجھے مل جائے گی۔ہارون رشید نے اپنے دوستوں کو(سیاہ لونڈی) پسندکرنے کی وجہ سمجھا دی۔ اور ہمیں یہ سمجھ میں آگیا جس کا خدا تعالیٰ ہوگیا اسے خداکی سلطنت (خداتعالیٰ کی عطاسے) مل جائے گی
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جنت میں آٹھ دروازے ہیں، اُن میں سے ایک دروازے کا نام ریّان ہے جس سے صرف روزہ دار داخل ہونگے۔
(بخاری شریف حدیث 3257 )
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا

روزہ آدھا صبر ہے۔
(سنن ابن ماجہ ، حدیث 1745 )
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا
الصیام والقرآن یشفعان للعبد یوم القیٰمۃ یقول الصیام ای رب منعتہ الطعام والشھوات بالنھار ، فشفعنی فیہ ، ویقول القرآن : منعتہ النوم باللیل ، فشفعنی فیہ قال : فیشفعان۔
یعنی : روزہ وقرآن بندہ کے لیے شفاعت کریں گے، روزہ کہے گا، اے رب عزوجل میں نے کھانے اور خواہشوں سے اسے روک دیا ، میری شفاعت اس کے حق میں قبول فرما۔ قرآن کہے گا، میں نے اسے رات میں سونے سے روکے رکھا، میری شفاعت اس کے حق میں قبول فرما۔ دونوں کی شفاعتیں قبول ہوں گی۔ ( مسند امام احمد بن حنبل، حدیث 6626، المستدرک للحاکم ، حدیث 2036، مشکوٰۃ شریف ، حدیث 1963، المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث 88 )
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے رمضان کا ایک روزہ بغیر مجبوری کے چھوڑا تو زندگی بھر کے روزے رمضان کے اس روزے کے برابر نہیں ہوسکتے۔ (ترمذی شریف ، حدیث 723 )
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ہر چیز کی زکوۃ ہے ، اور بدن کی زکوٰۃ روزہ ہے۔ (سنن ابن ماجہ ، حدیث 1745 )
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس نے نفلی روزہ اللہ عزوجل کی رضا کے لیے رکھا تو تیز گھوڑے کی رفتار سے سوبرس کی مسافت پر جہنم سے دور ہوگا۔ (مسند ابی یعلیٰ، حدیث 1484 )
یہ فضیلت نفلی روزے کی ہے، اور ہزاروں نفلی روزے رمضان المبارک کے ایک روزے کے برابر بھی نہیں ہو سکتے۔غورکریں رمضان کے روزوں کی فضلیت کتنی ہوگی، مگر صد افسوس ! رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں بغیر عذرِشرعی کے بعض لوگ اعلانیہ کھارہے ہوتے ہیں۔الامان والحفیظ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : روزے دار کی دعا افطار کے وقت رد نہیں کی جاتی ۔ (شعب الایمان ، حدیث 3904 )
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص اس ماہ (رمضان المبارک) میں روزہ دار کو افطار کروائے اس کے گناہوں کیلئے مغفرت ہے اور اس کو جہنم سے آزاد کردیا جائیگا اور اس افطار کروانے والے کو ویسا ہی ثواب ملے گا ،جیسا روزہ رکھنے والے کو ملتا ہے ، اور روزہ دار کے ثواب میں کمی بھی واقع نہ ہوگی۔ (مشکوٰۃ شریف ، حدیث 1965 )
اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

آمین بجاہ النبی الامین الکریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم وما علی الاالبلاغ

Mufti Waseem Ziyai - Copyright 2020